الف نظامی
لائبریرین
دیباچہ
الحمد للہ رب العالمین و الصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم الذی ہو رحمۃ اللعالمین و بالمومنین روف الرحیم۔
نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں تعریف کرنا۔ اصطلاحی طور پر یہ لفظ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی تعریف کے لیے مخصوص ہوچکا ہے ۔ اللہ تعالی نے اپنے کلام معجزنظام میں اپنے محبوب پاک کی تعریف و توصیف جابجا اور بوقلموں انداز میں فرمائی ہے۔ ایک جانب اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ،جن کی تعداد حد و حساب سے باہر ہے ، خود حضور سرور دوعالم پر دورد بھیجتے ہیں تو دوسری جانب اللہ تعالی نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام پر دورد و سلام بھیجنے ، مومنین کے لیے فرض قرار دیا ہے۔ چناچہ حضور سرور کونین پر نعت کے جو پھول شب و روز نچھاور ہوتے ہیں ، کمیت کے اعتبار سے ان کی نہ حد ہے نہ حساب۔ تاریخی اور زمانی حساب سے حضور کی نعت کا سلسلہ ازلی ہے۔ رب تعالی کا پاک کلام ، اس کی ذات کی طرح قدیم ہے۔ یہ کلام حضور کی نعت سے مملو ہے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ نعت گوئی کی تاریخ ازل سے پیوستہ ہے۔
نعت جب ازلی اور کلام الہی میں ہوئی تو نوا میں فطرت سے ٹھہری۔ گویا نعت ، فطرت انسانی میں بھی داخل ہے۔ فطرت اصلیہ بعض کے شعور کے اندر داخل ہوئی اور بعض کے تحت الشعور میں رہی۔ اس لیے بعض ہندووں یا دیگر غیر مسلموں کا حضور کی نعت لکھنا حیرت انگیز نہیں ۔ تحت الشعور کے بھی چونکہ بے شمار مراتب ہیں، اس لیے یہ توفیق انہی کو میسر آئی جن کا تحت الشعور شعوری سطح سے قریب تر آگیا۔
نعت اپنے عمومی مفہوم کے لحاظ سے نثر میں بھی ہوسکتی ہے لیکن اصطلاح میں نعت اس کلام کو کہتے ہیں، جو منظوم ہو۔ بیانی طور غزل اور دیگر اصناف سخن ، مجاز یا حقیقت یا ہردو کے حامل ہوسکتے ہیں لیکن صحیح نعت صرف حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ دوسرے اصناف سخن اپنے موضوعات کے لحاظ سے کثرت پسند ہوتے ہیں لیکن نعت توحید پرست واقع ہوئی ہے ۔ کیونکہ اس کا محور و مطاف ، محبت اور صرف محبت ہے۔ غزل بعض اوقات نعت کے حرم پاک میں بار پانے کی بے پناہ تمنا لے کر آگے بڑھتی ہے۔ ایسی صورت میں غزل اور نعت میں کوئی زیادہ مغائرت نہیں ہوتی۔ غزل جب باوضو ہوجاتی ہے تو نعت بن جاتی ہے۔
اللہ تعالی کی ذات حامد ہے، حضور محمد ہیں۔ اللہ کے محمود و محبوب کی تعریف میں قلم اٹھانے کی جرات بڑی جسارت ہے لیکن فطری تقاضوں کی تسکین بھی اپنے درجے میں ایک حقیقت ہے۔ حضور کی تعریف و توصیف ایک فطری تقاضہ ہے۔ اس لیے نعت اضطرارا روا ہوئی۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں حضور کی مدح کے آبدار موتی، منظومات کی حسین و جمیل کشتی میں سجانے کی نعمت ارزانی ہوئی ۔ حافظ مظہرالدین انہی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک ہیں۔
نعت گوئی بہت مشکل اور خطرناک کام ہے۔ مشکل اس لیے کہ محبوب رب العالمین کے حسن و جمال سے آشنائی کا دم بھرنا کوئی آسان بات نہیں اور خطرناک اس لیے کہ مقامِ نعت کی نزاکت و لطافت سے ناآشنائی نعت گو کو سوء ادب اور خسران مبین کی تاریک و عمیق غاروں میں دھکیل سکتی ہے۔ اثباتی پہلو سے نعت گو کے لیے لازمی ہے کہ اس کے وجود کا ذرہ ذرہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے عشق سے معمور ہو۔ خدائے کریم نے حافظ صاحب کے قلب و نگاہ کی تربیت کا بہترین انتظام فرمایا اور نہیں نہایت مناسب ماحول عطا کیا۔انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے والد ماجد مولانا نواب الدین صاحب ستکوئی ثم رمداسی کی خدمت میں گذارا جو سلسلہ چشتیہ کے ایک نامور بزرگ ، جید عالم دین اور زبان آور خطیب تھے۔ ان کے ارادت مندوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے ۔ عشق رسول حضرت مرحوم و مغفور کی رگ رگ میں رچا ہوا تھا۔ تبلیغ دین اور حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی محبت میں محفل آرائیاں اور اولیا اللہ اور عاشقان رسول سے ملاقاتیں کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ حافظ صاحب سفر و حضر میں اپنے والدِ بزرگوار کے ساتھ رہ کر مدتوں درس عشق رسول لیتے رہے۔ اللہ تبارک و تعالی کے افضال و انعام سے وہ ایک صاحب دل عالم دین بھی ہیں۔ رب تعالی کے پاک کلام کا نورانی سمندر ان کے سینہ میں موجزن ہے۔ تحریر و تقریر کی خوبیوں سے آراستہ ، نظم و نثر کے میدان میں شہسوار ہیں۔ عشق رسول ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ان عظیم نعمائے الہی کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حافظ صاحب کو نعت رسول کا حق پہنچتا ہے۔
حافظ صاحب نے عارفِ کامل حضرت خواجہ سراج الحق صاحب کرنالوی کو بھی دیکھا ہے۔ برسوں ان کے فیوض سے متمتع ہوئے ہیں اور بیعت کا شرف بھی حاصل کیا ہے۔
غزل اور دیگر اصناف سخن بالعموم عالم محسوسات اور عالم وہم و خیال میں محدود و محصور رہتے ہیں۔ نعت کو بھی ان عوالم سے مفر نہیں۔ لیکن اس کی پرواز ان عوالم سے برتر مقام یعنی عالم امر تک ہوتی ہے۔ یہ مقام ، مقامِ عشق و محبت ہے۔ عالم امر سے تراوش کردہ مضامین میں مذاق عشق و شان حسن کی آئینہ داری کرتے ہیں۔ حافظ صاحب کے نعتیہ کلام کی تگ و تاز بعض اوقات عالم امر تک ہوتی ہے۔
محبت کی لاانتہا محبوب اداوں میں سے ایک ادا یہ بھی ہے کہ وہ کبھی کبھی اچانک ایسی چٹکی لیتی ہے جس سے محب کے دل میں اور شاید محبوب کے دل میں بھی، کیف و سرور کی موجیں اٹھنے لگتی ہیں۔ حافظ صاحب کی نعتوں میں اکثر ایسے شعر ملتے ہیں جو پڑھنے یا سننے والوں کو ان چٹکیوں کے پیدا کردہ حسین و لطیف زلزلوں کے جھولے جھلاتے ہیں۔
مثلا
تیری مٹی وہیں کی ہے مظہر
تجھ سے آتی ہے بو مدینے کی
تجھ سے آتی ہے بو مدینے کی
دنیائے شعر و شاعری میں نعت کو بعض نادان مدِفاصل تصور کرتے ہیں اور اس لیے ان کے نزدیک نعت کے لیے فنی قواعد و محاسن کا لحاظ ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ یہ طرز عمل نہ صرف فن کی توہین و تخریب کے مترادف ہے بلکہ خود نعت کی عظمت و پاکیزگی کے پیش نظر ایک طرح کی بے ادبی و گستاخی ہے۔
محبوب کے حضور ہر پیش کش حسین و متوازن انداز میں پیش کی جانی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ فن کا منصب تحسین و تزئین ہی ہے۔ حافظ صاحب کی نعتیں الحمدللہ فنی اعتبار سے بھی بےداغ ، حسین اور مزین ہوتی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی اور اس کے محبوبِ پاک ، عشق رسول میں ، حافظ صاحب کی جاں فشانیوں کے ان نقوش کو جو پیراہ طباعت سے آراستہ ہورہے ہیں، شرف قبولیت عطا فرمائے اور یہ تازہ مجموعہ حافظ صاحب کے درجات کی مزید بلندی کا موجب ہو۔آمین ثم آمین
نعت گوئی ہو یہ نعت پر تبصرہ ، میرے نزدیک ہر دو ادب و احتیاط کے مقام کی چیزیں ہیں۔ اس لیے یہ چند سطور دھڑکتے ہوئے دل اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے لکھ پایا ہوں۔خدا کرئے کہ انہیں بارگاہ رسالت میں شرف قبولیت حاصل ہو۔
آمین و آخر دعانا ان الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم الذی ہو ذکر للعالمین۔
عبدمذنبِ غفارِالذنوب
محمد ایوب عفی عنہ (مصنف نوائے فردا)
(ڈپٹی سیکرٹری وزارت مالیات ۔ حکومت پاکستان)
اسلام آباد
مورخہ 18 ربیع الاول 1389 ھجری بمطابق 4 جون 1969 عیسوی
دیباچہ دوم
حسان العصر حافظ محمد مظہر الدین علیہ الرحمۃ وہ خوش نصیب انسان ہیں جنہیں زندگی بھر بارگاہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح سرائی کی سعادت نصیب ہوئی ۔ انہوں نے جمال کی شرح بھی کی اور جمال کا قصیدہ بھی پڑھا۔ نوازے بھی گئے اور انعام بھی پایا۔
ایک انعام خود ان کا وجود باجود ہے جو جمال کا صدقہ و عطا تھا۔ آپکی ذات جمال کی آئینہ دار تھی۔ محبت کی یہ ریت ہے کہ حسن جب خوش ہوتا ہے تو اپنی نشانی عطا کرتا ہے ۔ یہ نشانی سرمایہ تسکین بھی ہوتی ہے اور محب و محبوب کے تعلق کو واضح کرتی ہے ۔آپ فرماتے ہیں
حریم جاں میں فروزاں ہے حسن روئے رسول
جلا کہ شمع مری انجمن میں رکھ دینا
اللہ کریم کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی سنت کو کبھی مٹنے نہیں دیتا ۔ حضرت حافظ مظہر الدین کی پیدائش ہی حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سنت کو زندہ کرنے کے لیے ہوئی۔جلا کہ شمع مری انجمن میں رکھ دینا
ازل میں روح کو عشق نبی عطا کرنا
پھر ایسی روح کو میرے بدن میں رکھ دینا
یہی وجہ ہے کہ لوگ جوانی میں ہی آپ کو حسان العصر عاشق رسول اور شاعر دربار رسالت کہہ کر یاد کرتے تھے ۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ نعت گو کو شاعر ہی نہ مانتے تھے لیکن آپ نہ صرف جدید اردو نعت کے بانی کہلائے بلکہ نعت کو آپ اس مقام پہ لے آئے کہ اب کسی کے شاعر ہونے کی سند ہی نعت ہے۔ جو نعت نہ کہے وہ شاعر ہی نہیں۔ پھر ایسی روح کو میرے بدن میں رکھ دینا
دوسرا انعام یہ کہ وفات کے ایک سال بعد جب آپ کو چھتر شریف شاہراہ مری پر دفنانے کے لیے نکالا گیا تو معاملہ ایسے تھا جیسے ابھی دفنا کر گئے ہوں۔ عشق کی لطافتوں کا مٹی کی کثافتیں کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں۔
نور بر عارض و رخسار تو تابد مظہر
کز در سید و سلطان حجاز آمدہ
عظمتیں جمال کے ثناگر کا حصہ ہوتی ہیں۔ جو ثنا کرے گا ، عظمت پائے گا ،اعلی و ارفع مقام پر بٹھایا جائے گا۔کز در سید و سلطان حجاز آمدہ
کلام سے صاحب کلام کی معرفت ہوجاتی ہے۔ کلام حاضر ہے اسے پڑھکر اگر آپ اپنے سینے میں عشق رسول کی تپش محسوس کریں تو اسے دوسروں تک پہنچائیں۔ اس طرح حضرت کی دوسری بہت سی مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابیں جلد سامنے آسکیں گی۔ میرے مخاطب صرف اور صرف اہل دل اور اہل نظر ہی ہیں کیونکہ میں جبہ و دستار کی اونچی اونچی دکانوں کے پھیکے پکوانوں اور سجادگان کی ہوس جاہ و حشم سے بخوبی واقف ہوں۔
ہوں مدح خوان نبی خوف آخرت کیا ہے
"تجلیات" کو میرے کفن میں رکھ دینا
خادم الفقراء میاں اویس احمد مظہر ، چھتر شریف شاہراہ مری راولپنڈی
"تجلیات" کو میرے کفن میں رکھ دینا
خادم الفقراء میاں اویس احمد مظہر ، چھتر شریف شاہراہ مری راولپنڈی