تجلیات از حافظ مظہر الدین مظہر

الف نظامی

لائبریرین
دیباچہ

الحمد للہ رب العالمین و الصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم الذی ہو رحمۃ اللعالمین و بالمومنین روف الرحیم۔

نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں تعریف کرنا۔ اصطلاحی طور پر یہ لفظ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی تعریف کے لیے مخصوص ہوچکا ہے ۔ اللہ تعالی نے اپنے کلام معجزنظام میں اپنے محبوب پاک کی تعریف و توصیف جابجا اور بوقلموں انداز میں فرمائی ہے۔ ایک جانب اللہ تعالی اور اس کے فرشتے ،جن کی تعداد حد و حساب سے باہر ہے ، خود حضور سرور دوعالم پر دورد بھیجتے ہیں تو دوسری جانب اللہ تعالی نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام پر دورد و سلام بھیجنے ، مومنین کے لیے فرض قرار دیا ہے۔ چناچہ حضور سرور کونین پر نعت کے جو پھول شب و روز نچھاور ہوتے ہیں ، کمیت کے اعتبار سے ان کی نہ حد ہے نہ حساب۔ تاریخی اور زمانی حساب سے حضور کی نعت کا سلسلہ ازلی ہے۔ رب تعالی کا پاک کلام ، اس کی ذات کی طرح قدیم ہے۔ یہ کلام حضور کی نعت سے مملو ہے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ نعت گوئی کی تاریخ ازل سے پیوستہ ہے۔
نعت جب ازلی اور کلام الہی میں ہوئی تو نوا میں فطرت سے ٹھہری۔ گویا نعت ، فطرت انسانی میں بھی داخل ہے۔ فطرت اصلیہ بعض کے شعور کے اندر داخل ہوئی اور بعض کے تحت الشعور میں رہی۔ اس لیے بعض ہندووں یا دیگر غیر مسلموں کا حضور کی نعت لکھنا حیرت انگیز نہیں ۔ تحت الشعور کے بھی چونکہ بے شمار مراتب ہیں، اس لیے یہ توفیق انہی کو میسر آئی جن کا تحت الشعور شعوری سطح سے قریب تر آگیا۔
نعت اپنے عمومی مفہوم کے لحاظ سے نثر میں بھی ہوسکتی ہے لیکن اصطلاح میں نعت اس کلام کو کہتے ہیں، جو منظوم ہو۔ بیانی طور غزل اور دیگر اصناف سخن ، مجاز یا حقیقت یا ہردو کے حامل ہوسکتے ہیں لیکن صحیح نعت صرف حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ دوسرے اصناف سخن اپنے موضوعات کے لحاظ سے کثرت پسند ہوتے ہیں لیکن نعت توحید پرست واقع ہوئی ہے ۔ کیونکہ اس کا محور و مطاف ، محبت اور صرف محبت ہے۔ غزل بعض اوقات نعت کے حرم پاک میں بار پانے کی بے پناہ تمنا لے کر آگے بڑھتی ہے۔ ایسی صورت میں غزل اور نعت میں کوئی زیادہ مغائرت نہیں ہوتی۔ غزل جب باوضو ہوجاتی ہے تو نعت بن جاتی ہے۔
اللہ تعالی کی ذات حامد ہے، حضور محمد ہیں۔ اللہ کے محمود و محبوب کی تعریف میں قلم اٹھانے کی جرات بڑی جسارت ہے لیکن فطری تقاضوں کی تسکین بھی اپنے درجے میں ایک حقیقت ہے۔ حضور کی تعریف و توصیف ایک فطری تقاضہ ہے۔ اس لیے نعت اضطرارا روا ہوئی۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں حضور کی مدح کے آبدار موتی، منظومات کی حسین و جمیل کشتی میں سجانے کی نعمت ارزانی ہوئی ۔ حافظ مظہرالدین انہی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک ہیں۔
نعت گوئی بہت مشکل اور خطرناک کام ہے۔ مشکل اس لیے کہ محبوب رب العالمین کے حسن و جمال سے آشنائی کا دم بھرنا کوئی آسان بات نہیں اور خطرناک اس لیے کہ مقامِ نعت کی نزاکت و لطافت سے ناآشنائی نعت گو کو سوء ادب اور خسران مبین کی تاریک و عمیق غاروں میں دھکیل سکتی ہے۔ اثباتی پہلو سے نعت گو کے لیے لازمی ہے کہ اس کے وجود کا ذرہ ذرہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے عشق سے معمور ہو۔ خدائے کریم نے حافظ صاحب کے قلب و نگاہ کی تربیت کا بہترین انتظام فرمایا اور نہیں نہایت مناسب ماحول عطا کیا۔انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے والد ماجد مولانا نواب الدین صاحب ستکوئی ثم رمداسی کی خدمت میں گذارا جو سلسلہ چشتیہ کے ایک نامور بزرگ ، جید عالم دین اور زبان آور خطیب تھے۔ ان کے ارادت مندوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے ۔ عشق رسول حضرت مرحوم و مغفور کی رگ رگ میں رچا ہوا تھا۔ تبلیغ دین اور حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی محبت میں محفل آرائیاں اور اولیا اللہ اور عاشقان رسول سے ملاقاتیں کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ حافظ صاحب سفر و حضر میں اپنے والدِ بزرگوار کے ساتھ رہ کر مدتوں درس عشق رسول لیتے رہے۔ اللہ تبارک و تعالی کے افضال و انعام سے وہ ایک صاحب دل عالم دین بھی ہیں۔ رب تعالی کے پاک کلام کا نورانی سمندر ان کے سینہ میں موجزن ہے۔ تحریر و تقریر کی خوبیوں سے آراستہ ، نظم و نثر کے میدان میں شہسوار ہیں۔ عشق رسول ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ان عظیم نعمائے الہی کے پیش نظر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حافظ صاحب کو نعت رسول کا حق پہنچتا ہے۔
حافظ صاحب نے عارفِ کامل حضرت خواجہ سراج الحق صاحب کرنالوی کو بھی دیکھا ہے۔ برسوں ان کے فیوض سے متمتع ہوئے ہیں اور بیعت کا شرف بھی حاصل کیا ہے۔
غزل اور دیگر اصناف سخن بالعموم عالم محسوسات اور عالم وہم و خیال میں محدود و محصور رہتے ہیں۔ نعت کو بھی ان عوالم سے مفر نہیں۔ لیکن اس کی پرواز ان عوالم سے برتر مقام یعنی عالم امر تک ہوتی ہے۔ یہ مقام ، مقامِ عشق و محبت ہے۔ عالم امر سے تراوش کردہ مضامین میں مذاق عشق و شان حسن کی آئینہ داری کرتے ہیں۔ حافظ صاحب کے نعتیہ کلام کی تگ و تاز بعض اوقات عالم امر تک ہوتی ہے۔
محبت کی لاانتہا محبوب اداوں میں سے ایک ادا یہ بھی ہے کہ وہ کبھی کبھی اچانک ایسی چٹکی لیتی ہے جس سے محب کے دل میں اور شاید محبوب کے دل میں بھی، کیف و سرور کی موجیں اٹھنے لگتی ہیں۔ حافظ صاحب کی نعتوں میں اکثر ایسے شعر ملتے ہیں جو پڑھنے یا سننے والوں کو ان چٹکیوں کے پیدا کردہ حسین و لطیف زلزلوں کے جھولے جھلاتے ہیں۔
مثلا
تیری مٹی وہیں کی ہے مظہر
تجھ سے آتی ہے بو مدینے کی​

دنیائے شعر و شاعری میں نعت کو بعض نادان مدِفاصل تصور کرتے ہیں اور اس لیے ان کے نزدیک نعت کے لیے فنی قواعد و محاسن کا لحاظ ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ یہ طرز عمل نہ صرف فن کی توہین و تخریب کے مترادف ہے بلکہ خود نعت کی عظمت و پاکیزگی کے پیش نظر ایک طرح کی بے ادبی و گستاخی ہے۔
محبوب کے حضور ہر پیش کش حسین و متوازن انداز میں پیش کی جانی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ فن کا منصب تحسین و تزئین ہی ہے۔ حافظ صاحب کی نعتیں الحمدللہ فنی اعتبار سے بھی بےداغ ، حسین اور مزین ہوتی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی اور اس کے محبوبِ پاک ، عشق رسول میں ، حافظ صاحب کی جاں فشانیوں کے ان نقوش کو جو پیراہ طباعت سے آراستہ ہورہے ہیں، شرف قبولیت عطا فرمائے اور یہ تازہ مجموعہ حافظ صاحب کے درجات کی مزید بلندی کا موجب ہو۔آمین ثم آمین
نعت گوئی ہو یہ نعت پر تبصرہ ، میرے نزدیک ہر دو ادب و احتیاط کے مقام کی چیزیں ہیں۔ اس لیے یہ چند سطور دھڑکتے ہوئے دل اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے لکھ پایا ہوں۔خدا کرئے کہ انہیں بارگاہ رسالت میں شرف قبولیت حاصل ہو۔
آمین و آخر دعانا ان الحمدللہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم الذی ہو ذکر للعالمین۔
عبدمذنبِ غفارِالذنوب
محمد ایوب عفی عنہ (مصنف نوائے فردا)
(ڈپٹی سیکرٹری وزارت مالیات ۔ حکومت پاکستان)
اسلام آباد
مورخہ 18 ربیع الاول 1389 ھجری بمطابق 4 جون 1969 عیسوی
دیباچہ دوم

حسان العصر حافظ محمد مظہر الدین علیہ الرحمۃ وہ خوش نصیب انسان ہیں جنہیں زندگی بھر بارگاہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح سرائی کی سعادت نصیب ہوئی ۔ انہوں نے جمال کی شرح بھی کی اور جمال کا قصیدہ بھی پڑھا۔ نوازے بھی گئے اور انعام بھی پایا۔

ایک انعام خود ان کا وجود باجود ہے جو جمال کا صدقہ و عطا تھا۔ آپکی ذات جمال کی آئینہ دار تھی۔ محبت کی یہ ریت ہے کہ حسن جب خوش ہوتا ہے تو اپنی نشانی عطا کرتا ہے ۔ یہ نشانی سرمایہ تسکین بھی ہوتی ہے اور محب و محبوب کے تعلق کو واضح کرتی ہے ۔آپ فرماتے ہیں
حریم جاں میں فروزاں ہے حسن روئے رسول
جلا کہ شمع مری انجمن میں رکھ دینا​
اللہ کریم کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی سنت کو کبھی مٹنے نہیں دیتا ۔ حضرت حافظ مظہر الدین کی پیدائش ہی حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سنت کو زندہ کرنے کے لیے ہوئی۔
ازل میں روح کو عشق نبی عطا کرنا
پھر ایسی روح کو میرے بدن میں رکھ دینا​
یہی وجہ ہے کہ لوگ جوانی میں ہی آپ کو حسان العصر عاشق رسول اور شاعر دربار رسالت کہہ کر یاد کرتے تھے ۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ نعت گو کو شاعر ہی نہ مانتے تھے لیکن آپ نہ صرف جدید اردو نعت کے بانی کہلائے بلکہ نعت کو آپ اس مقام پہ لے آئے کہ اب کسی کے شاعر ہونے کی سند ہی نعت ہے۔ جو نعت نہ کہے وہ شاعر ہی نہیں۔
دوسرا انعام یہ کہ وفات کے ایک سال بعد جب آپ کو چھتر شریف شاہراہ مری پر دفنانے کے لیے نکالا گیا تو معاملہ ایسے تھا جیسے ابھی دفنا کر گئے ہوں۔ عشق کی لطافتوں کا مٹی کی کثافتیں کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں۔
نور بر عارض و رخسار تو تابد مظہر
کز در سید و سلطان حجاز آمدہ​
عظمتیں جمال کے ثناگر کا حصہ ہوتی ہیں۔ جو ثنا کرے گا ، عظمت پائے گا ،اعلی و ارفع مقام پر بٹھایا جائے گا۔
کلام سے صاحب کلام کی معرفت ہوجاتی ہے۔ کلام حاضر ہے اسے پڑھکر اگر آپ اپنے سینے میں عشق رسول کی تپش محسوس کریں تو اسے دوسروں تک پہنچائیں۔ اس طرح حضرت کی دوسری بہت سی مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابیں جلد سامنے آسکیں گی۔ میرے مخاطب صرف اور صرف اہل دل اور اہل نظر ہی ہیں کیونکہ میں جبہ و دستار کی اونچی اونچی دکانوں کے پھیکے پکوانوں اور سجادگان کی ہوس جاہ و حشم سے بخوبی واقف ہوں۔
ہوں مدح خوان نبی خوف آخرت کیا ہے
"تجلیات" کو میرے کفن میں رکھ دینا
خادم الفقراء میاں اویس احمد مظہر ، چھتر شریف شاہراہ مری راولپنڈی​
 

الف نظامی

لائبریرین
قلندروں کی اذاں لا الہ الا اللہ
سرودِ زندہ دلاں لا الہ الا اللہ

سکونِ قلب تپاں لا الہ الا اللہ
دوائے دردِ نہاں لا الہ الا اللہ

فروغِ کون و مکاں لا الہ الا اللہ
تجلیوں کا جہاں لا الہ الا اللہ

قرارِ ماہ و شاں لا الہ الا اللہ
پناہِ گلبدناں لا الہ الا اللہ

ہے بے نیازِ خزاں لا الہ الا اللہ
بہارِ باغِ جناں لا الہ الا اللہ

بتوں سے دے گا اماں لا الہ الا اللہ
بنا وظیفہ جاں لا الہ الا اللہ

وہ خود ہے جلوہ فشاں لا الہ الا اللہ
وجودِ غیر کہاں لا الہ الا اللہ

غریبِ شہر کے سینے میں ہے نہاں کوئی
فقیر کا ہے بیاں لا الہ الا اللہ

یہی ہے میرا پتہ لا الہ الا ہو
یہی ہے میرا نشاں لا الہ الا اللہ

جنوں مشاہدہ ذاتِ ذوالجلال میں ہے
خرد ہے وہم وگماں لا الہ الا اللہ

نظر اٹھا کہ جمودِ حیات بھی ٹوٹے
پکار زمزمہ خواں لا الہ الا اللہ

اسی لیے تو بتوں کی جبیں ہے خاک آلود
ہے میرے وردِ زباں لا الہ الا اللہ

ہے میرا نغمہ توحید لاشریک لہ
ہے میری تاب وتواں لا الہ الا اللہ

اسی سے میری محبت کی شام ہے رنگیں
میری سحر کی اذاں لا الہ الا اللہ

وہیں جمالِ رخِ یار کی تجلی ہے
جہاں ہ وجد کناں لا الہ الا اللہ

بہا کے آج لیے جا رہا ہے مظہر کو
برنگ سیل رواں لا الہ الا اللہ
 

الف نظامی

لائبریرین
گفتگوئے شہ ﷺ ابرار بہت کافی ہے
ہو محبت تو یہ گفتار بہت کافی ہے

یادِ محبوبﷺ میں جو گزرے وہ لمحہ ہے بہت
اس قدر عالم انوار نہت کافی ہے

مدح سرکار ﷺ میں یہ کیف، یہ مستی ،یہ سرور
میری کیفیتِ سرشاربہت کافی ہے

للہ الحمد کہ ہم سوختہ جانوں کیلیے
شاہﷺ کا سایہ دیوار بہت کافی ہے

کاش اک اشک بھی ہو جائے قبولِ شہﷺ دیں
ایک بھی گوھرِ شہوار بہت کافی ہے

نصرتِ اہل ہمم کی نہیں حاجت مجھ کو
مددِ احمدِمختار ﷺ بہت کافی ہے

بے ادب ! دیکھ نہ یوں روضے کی جالی سے لپٹ
کم نظر! بوسہ دیوار بہت کافی ہے

روبرو رہتے ہیں انوارِ مدینہ مظہر
حسرتِ جلوہ دیدار بہت کافی ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
اے کے تیرا جمال ہے رونق محفلِ وجود
اے کہ تری نمود ہے جلوہ طراز ہست و بود
یاد تو داد لذتے ذکرِ تو شوق من فزود
تجھ پر درود اور سلام تجھ پر سلام اور درود

صلی علی نبینا صل علی محمد

آئینہ جمال ہے صورت حق نما تری
پھیلی ہے کائنات میں چاروں طرف ضیا تیری
ہے لبِ جبرئیل پر شام و سحر ثنا تری
غازہ روئے قدسیاں تابشِ خاکِ پا تری

صلی علی نبینا صل علی محمد

شکرِ خدا زباں پہ ہے زمزمہ تیرے نور کا
یہ ہے گھڑی نجات کی یہ ہے سماں سرور کا
یہ بھی تو فیض عام ہے اے شہ دیں حضور کا
میری نوا میں کیف ہے موج مئے طہور کا

صلی علی نبینا صل علی محمد

ارض و سما کی بزم میں دھوم ہے تیرے نام کی
تیرے سوادِ زلف کی تیرے مہِ تمام کی
باعث انبساط ہے بزم میں صبح و شام کی
نغمہ کہیں درود کا گونج کہیں سلام کی

صلی علی نبینا صل علی محمد

کون و مکاں کی رونقیں جلوہ نما حضور سے
مطربِ صبحِ نور کی لے ہے ترے ظہور سے
ہم نے سنا تھا ایک دن سدرہ نشیں طیور سے
حسن ہے تیرے نور سے عشق ہے تیرے نور سے

صلی علی نبینا صل علی محمد

عشق کی منزل و مراد تیرا وجودِ محترم
سوز و سرور و جذب و شوق تیری نگاہ کا کرم
تجھ سے عرب کی عظمتیں تجھ سے عجم ہے محتشم
تیرا جمالِ جاں فروز جلوہ دہِ رخِ حرم

صلی علی نبینا صل علی محمد

ساقی بزم دلبری ! عقدہ کشائے غم ہے تو
جود وسخا تری ادا رحم و کرم ہے تیری خو
مدتیں ہوگئیں مجھے تشنہ لب و تہی سبو
تیرے کرم پہ منحصر تیرے گدا کی آبرو

صلی علی نبینا صل علی محمد

تجھ سے کہوں تو کیا کہوں ، تجھ سے کروں سوال کیا
تیرے حضور اے کریم! کوشش عرض حال کیا
تیری عنایتوں کی خیر ، فکر و غمِ مآل کیا
تو ہے جو میرا دستگیر ہے مجھے پھر ملال کیا

صلی علی نبینا صل علی محمد
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
مدینے کی فضا ہے اور میں ہوں
جمالِ حق نما ہے اور میں ہوں

شہِ دیں کی ثنا ہے اور میں ہوں
حقیقت جلوہ زا ہے اور میں ہوں

ہمہ نغمہ ہمہ مستی ہمہ سوز
مری زنگیں نوا ہے اور میں ہوں

برستے ہیں مری دنیا پہ انوار
عطائے مصطفی ہے اور میں ہوں

ہر اک مشکل ہوئی جاتی ہے آساں
مرا مشکل کشا ہے اور میں ہوں

ہے دل مضطر ، نظر سوئے مدینہ
لبوں پر اک دعا ہے اور میں ہوں

شہنشاہ دوعالم کی گلی میں
فقیرانہ صدا ہے اور میں ہوں

ہوا ہوں باریابِ منزلِ شوق
کرم کی انتہا ہے اورمیں ہوں

زباں خاموش ہے آنکھوں میں آنسو
محبت کی ادا ہے اور میں ہوں

مرا عالم ہے جذب و کیف و مستی
یہ نعتوں کا صلہ ہے اور میں ہوں
 

الف نظامی

لائبریرین
تیری نگاہ سے ذرے بھی مہروماہ بنے
گدائے بے سروساماں جہاں پناہ بنے

رہِ مدینہ میں قدسی بھی ہیں جبیں فرسا
یہ آرزو ہے میری جاں بھی خاکِ راہ بنے

زمانہ وجد کناں اب بھی ان کے طوف میں ہے
جو کوہ و دشت کبھی تیری جلوہ گاہ بنے

حضور ہی کے کرم نے مجھے تسلی دی
حضور ہی مرے غم میں مری پناہ بنے

ترا غریب بھی شایانِ یک نوازش ہو
ترا فقیر بھی اک روز کجکلاہ بنے

جہاں جہاں سے وہ گذرے جہاں جہاں ٹھہرے
وہی مقام محبت کی جلوہ گاہ بنے

کریم! یہ بھی تری شانِ دلنوازی ہے
کہ ہجر میں میرے جذبات اشک و آہ بنے

وہ حسن دے جو تری طلعتوں کا مظہر ہو
وہ نور دے جو فروغ دل و نگاہ بنے
 

الف نظامی

لائبریرین
مصحف روئے محمد کا جو عرفان نہ تھا
دہر میں کوئی بشر صاحبِ ایمان نہ تھا

جب ترا حسن مری فکر کا عنوان نہ تھا
میں ترے عشق کی منزل کا حدی خوان نہ تھا

میں اسی وقت سے منسوب تری ذات سے ہوں
جب کہ جبریل امیں بھی ترا دربان نہ تھا

دشتِ غم میں بھی تری یاد مرے ساتھ رہی
عشق تنہا تھا مگر بے سروسامان نہ تھا

کون سی خوبی تھی جو نور کے پیکر میں نہ تھی
کون سا پھول تھا جو زیب گلستان نہ تھا

دلِ عشاق نہ کیوں طور تجلی بنتا
عشق فردوسِ محبت تھا بیابان نہ تھا

ان کی یکتائی پہ تھے آدم و حوا بھی فدا
یوسف مصر ہی سوجان سے قربان نہ تھا

مل کے مظہر سے نئے نعت کے مضمون سنے
دور رہ کر ہمیں اندازہ طوفان نہ تھا
 

الف نظامی

لائبریرین
جب لیا نامِ نبی میں نے دعا سے پہلے
مری آواز وہاں پہنچی صبا سے پہلے

کوئی آگاہ نہ تھا شانِ خدا سے پہلے
جلوہ ، بے رنگ تھا اک جلوہ نما سے پہلے

کر نہ منزل کی طلب ، راہنما سے پہلے
ذکر محبوب سنا ذکر خدا سے پہلے

بے وضو عشق کے مذہب میں عبادت ہے حرام
خوب رو لیتا ہوں خواجہ کی ثنا سے پہلے

ترے عرفان پہ موقوف ہے عرفانِ خدا
کہ ترا نام سنا ہم نے خدا سے پہلے

دمِ آخر مجھے آقا کی زیارت ہوگی
ایک دن آئیں گے سرکار قضا سے پہلے

حق سے کرتا ہوں دعا پڑھ کہ محمد پہ درود
یہ وسیلہ بھی ضروری ہے دعا سے پہلے

ہم نے بھی اس در اقدس پہ جمائی ہے نظر
جس جگہ منگتوں کو ملتا ہے صدا سے پہلے

نعت میں کیف و اثر کی ہے طلب تو مظہر
مانگ لے سوز درِ شاہ ہدا سے پہلے
 

الف نظامی

لائبریرین
دل سے اک ہوک اٹھی سوئے مدینہ دیکھا
ہم نے طوفان میں جب اپنا سفینہ دیکھا

علم و عرفانِ الہی کا خزینہ دیکھا
عشقِ سرکار سے معمور جو سینہ دیکھا

ان کے صدقے جنہیں یادِ شہ ابرار ملی
ان کے قربان جن آنکھوں نے مدینہ دیکھا

کون جز سرور دیں عرش بریں تک پہنچا
کس نے قصر شہ لولاک کا زینہ دیکھا

خرد اس معجزہ شوق پہ حیران ہوئی
ان کے دربار میں جب مجھ سا کمینہ دیکھا

اس نے تنویر رخ ماہ مدینہ دیکھی
جس بشر نے بھی مرے دل کا نگینہ دیکھا

مجھ سا ناکارہ اور اس پر یہ نزولِ الہام
مرے آقا تری بخشش کا قرینہ دیکھا

آج مظہر سے سرراہ ملاقات ہوئی
آج ہم نے بھی سگ کوئے مدینہ دیکھا
 

الف نظامی

لائبریرین
دل میرا تجلی کدہ عشقِ نبی ہے
عجمی ہے مگر کشتہ نازِ عربی ہے

ممتاز عراقی ہے یہاں ، خوش حلبی ہے
یہ سلسلہ عشقِ رسول عربی ہے

خواجہ کی عنایت ہے ، یہ فیضانِ نبی ہے
سینے میں مرے عشق کی جو آگ دبی ہے

اے ساقی تسنیم! یہ کیا بوالعجبی ہے
مدت سے بدستور مری تشنہ لبی ہے

یہ روضہِ سرکار ہے ، دربارِ نبی ہے
خاموش کہ فریاد یہاں بے ادبی ہے

اس ربط کے اس نسبت باہم کے تصدق
سلطانِ امم! میں عجمی تو عربی ہے

اے پیکر رعنائی و زیبائی و خوبی
تو سید مکی مدنی و عربی ہے

بس اتنا ہمیں مظہر حیراں کا پتہ ہے
وابستہ درگاہِ رسولِ عربی ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
کیا کہوں ان کے لطف سے یوں ہے دل آشنا کہ یوں
ان کی عطا سے پوچھیے بولے گی خود عطا کہ یوں

یوں حرمِ جمال میں قربِ حبیب تھا کہ یوں
کوئی یہ کیا کہے کہ یوں کوئی بتائے کیا کہ یوں

سوچ میں تھے الم نصیب کیسے سکوں سے ہوں قریب
میں نے درودِ پاک انہیں پڑھ کے بتا دیا کہ یوں

مجھ کو یہ فکر تھی کہ میں پہنچوں گا طیبہ کس طرح
باغ جہاں کے صحن میں چلنے لگی ہوا کہ یوں

پردہ سوز و ساز میں یا غمِ جاں نواز میں
یوں کہوں ان کے روبرو درد کا ماجرا کہ یوں

جو یہ کہیں کہ فقر کی شان میں دل کشی کہاں
ان کو درِ رسول کا مجھ سا گدا دکھا کہ یوں

مظہر بے عمل کو بھی ان کی لگن ضرور تھی
خیر یہ بحث چھوڑیے یوں تھا وہ خوش نوا کہ یوں
 

الف نظامی

لائبریرین
سرشار میرا دل ہے مدینے کی طلب سے
یارب! ہے مری خاک عجم سے کہ عرب سے

ہر لحظہ دعا ہے دلِ مہجور کی رب سے
آجائے کوئی نامہ و پیغام عرب سے

اے ماہ عرب ! اتنی گذارش ہے ادب سے
آنکھیں میری جلووں کی طلب گار ہیں کب سے

محفوظ رہے حشر میں ہم ان کے سبب سے
ہر پرسش اعمال سے ، ہر قہر و غضب سے

تفریق نہیں عشق میں عربی عجمی کی
آزاد ہے دیوانہ ترا نام و نسب سے

کونین سرافگندہ ہیں دہلیز پہ تیری
کونین کو توقیر ملی تیرے سبب سے

جب عشق کی دنیا میں چلی رسم غلامی
خواجہ کا قلادہ مری گردن میں ہے جب سے

گنجینہ اسرار ہے سرکار کا سینہ
جبرئیل بھی سیراب ہوئے امی لقب سے

جس ماہ کی فرقت میں ہیں آنکھیں مری بے نور
اے کاش کہ وہ ماہ بھی گذرے مری شب سے

اللہ کو مرغوب ہیں کیا تیری ادائیں
"قل" کہہ کے سنی بات بھی اپنی ترے لب سے

کھل جائیں اگر میرے لیے بابِ مدینہ
چھٹ جاوں شب و روز کے اس رنج و تعب سے

جس نعت میں ہو سوز و گدازِ دلِ مظہر
وہ نعت ملے گی مرے ایوان ادب سے
 

الف نظامی

لائبریرین
میں خستہ دل کہاں درِ خیرا لبشر کہاں
پہنچی ہے اضطراب میں میری نظر کہاں

قاصد کہاں سفیر کہاں نامہ بر کہاں
لیکن وہ میرے حال سے ہیں بے خبر کہاں

آسودہِ جمال ہے میری نظر کہاں
دیکھی ہے میں نے طیبہ کی شام و سحر کہاں

میر عرب! عجم میں سکونِ نظر کہاں
یہ تو میرے فراق کی منزل ہے گھر کہاں

دل ہے کہاں خیال کہاں ہے نظر کہاں
دیوانہِ رسول کو اتنی خبر کہاں

اہلِ خرد ہیں میرے شریکِ سفر کہاں
یہ راہِ مصطفی ہے یہاں حیلہ گر کہاں

اب اہلِ دل کہاں کوئی اہلِ نظر کہاں
لے جاوں اب میں اپنی متاعِ ہنر کہاں

آقا نظر کہ عشق کا خانہ خراب ہے
اب سوزِ دل کہاں ہے گدازِ جگر کہاں

معراج ہے نصیب کہاں میرے عشق کو
ہے ان کے آستاں پہ ابھی میرا سر کہاں

طیبہ پہنچ کے ہم بھی سنیں گے صدائے دل
دل نغمہ بار ہوگا سرِ رہگذر کہاں

وارفتگی میں شوقِ زیارت تو ہے مگر
شائستہِ جمال ہے میری نظر کہاں

اے کم سواد! عشق ترا ناتمام ہے
اے دل! ہے دور روضہ خیرا لبشر کہاں

اے دستگیر دستِ کرم کو دراز کر
یوں ہوگی میری عمر محبت بسر کہاں

یہ وقت مانگنے کا ہے دستِ طلب اٹھا
ناداں ہے بند بابِ قبول و اثر کہاں

کیف آفریں ہے ہجر بھی ان کا وصال بھی
یہ کلفتیں گراں ہیں مرے ذوق پر کہاں

ہیں بے پناہ وسعتیں عشقِ رسول کی
میرا جہان حلقہ شام و سحر کہاں

میرے لیے ہے مدینے کا در کھلا ہوا
ہے ناقبول میری دعائے سحر کہاں

میں عازمِ حرم تجھے آوارگی نصیب
تو میرا ساتھ دئے گی نسیمِ سحر کہاں

ہر لمحہ جاں نواز ہے راہِ رسول کا
عشقِ نبی میں ہو تو سفر ہے سفر کہاں

ہم نے سنا ہے قصہ طور و کلیم بھی
شاہِ امم کی سیر کا عالم مگر کہاں

اک بھید ہے حقیقتِ معراجِ مصطفی
اسرارِ لامکاں کی کسی کو خبر کہاں

چل دوں سوئے مدینہ مگر پا شکستہ ہوں
اڑ جاوں سوئے طیبہ مگر بال و پر کہاں

شمس و قمر تو کعبہِ قلب ونظر نہیں
ذرے ہیں ان کی راہ کے شمس و قمر کہاں

پیشِ حضور درد کا اظہار کر سکوں
میرا یہ دل کہاں ہے یہ میرا جگر کہاں

شہرِ نبی میں بکھرے مضامین پڑھ سکوں
اتنا بلند میرا مذاقِ سخن کہاں

ان کا جمال غیرتِ صد جبرئیل ہے
ان کا جمال مثلِ جمالِ بشر کہاں

گبھرا نہ میری نظمِ مرصع ہے گر طویل
افسانہ ان کے حسن کا ہے مختصر کہاں

رنگِ غزل بھی ہے مرے اس رنگِ نعت میں
محدود ہے جمالِ شہ بحر و بر کہاں

مظہر یہ نعتِ خواجہ عالم کا فیض ہے
ورنہ مرے کلام میں تھا یہ اثر کہاں​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
جس دل میں جلوہ گر ہے محبت حضور کی
اُس دل پہ لاکھ بار ہو رحمت حضور کی

سرکار کا جمال خدا کا جمال ہے
آئینہ ء جمال ہے صورت حضور کی

صبحِ ازل کو جس نے پر انوار کر دیا
جلوہ حضور کا تھا وہ طلعت حضور کی

صدیق ہمرکاب تھے بستر پہ تھے علی
ہر طرح کیف بار تھی ہجرت حضور کی

رحمت ، رسولِ پاک ہیں کونین کے لئے
کونین کو محیط ہے رحمت حضور کی

اس ذاتِ بے مثال کو تشبیہ کس سے دوں
اک حُسنِ بے مثال ہے صورت حضور کی

لاکھوں درود آلِ رسولِ کریم پر
محشر میں بخشوائے گی عترت رسول کی

اے کاش میں بھی خواب میں دیکھوں حضور کو
اے کاش مجھ کو بھی ہو زیارت حضور کی

جب کوئی بھی نہ مونسِ جاں ہوگا حشر میں
ڈھونڈے گی عاصیوں کو شفاعت حضور کی

میرے لئے یہ کم شرف و افتخار ہے؟
بندہ خدا کا اور ہوں اُمت حضور کی

اے کار ساز! اپنے کرم سے مجھے نواز
اے کردگار! بخش محبت حضور کی

شیریں ہے میرے شاہ کا ہر ایک تذکرہ
رنگیں ہے ہر ایک حکایت حضور کی

جس میں خدا کی ذکر تھا جس میں خدا کی یاد
خلوت حضور کی تھی وہ جلوت حضور کی

ہے مظہرِ جمالِ خدا روضہ آپ کا
آئینہ دارِ حُسن ہے تربت حضور کی

اے ناشناسِ لذت سوز وگدازِ عشق
آ مجھ سے سن لذیذ حکایت حضور کی

امیدوارِ لطف و کرم پر بھی ہو کرم!
مشہور ہے جہاں میں سخاوت حضور کی

میری نوا کا سوز ، مرے زمزموں کا نور
بخشش حضور کی ہے ، عنایت حضور کی

اول تھا انبیا سے شہِ انبیا کا ذکر
آخر ہے مرسلیں سے رسالت حضور کی

شاہد ہے ان کے قول و عمل پر کلامِ حق
ثابت کلامِ حق سے ہے عصمت حضور کی

مظہر ہزار جان فدا ایسی موت پر
سنے ہیں مر کے ہوگی زیارت حضور کی​
 

الف نظامی

لائبریرین
آو کہ ذکرِ حسنِ شہﷺ بحر و بر کریں
جلوے بکھیر دیں شبِ غم کی سحر کریں

مل کر بیاں محاسنِ خیرالبشر کریں
عشقِ نبی ﷺکی آگ کو کچھ تیز تر کریں

جو حسن میرے پیشِ نظر ہے اگر اسے
جلوے بھی دیکھ لیں تو طوافِ نظر کریں

وہ چاہیں تو صدف کو درِ بے بہا ملے
وہ چاہیں تو خزف کو حریفِ گہر کریں

فرمائیں تو طلوع ہو مغرب سے آفتاب
چاہیں تو اک اشارے سےشقِ قمر کریں

کونیں کو محیط ہے سرکار کا کرم
سرکارﷺ آپ ہم پہ کرم کی نظر کریں

راہِ نبی میں غیر پہ تکیہ حرام ہے
اے عشق آ کہ بے سروساماں سفر کریں

دل میں بھی ہو درود ، زباں پر بھی ہو درود
یوں منزلِ حبیب کی جانب سفر کریں

کونین وجد میں ہوں ، جنوں نغمہ بار ہو
یعنی جہانِ ہوش کو زیر و زبر کریں

چومیں ہر ایک ذرہِ راہِ رسول کو
سجدے قدم قدم پہ سرِ رہگذر کریں

آنسو قبول ہوں درِ خیر الانام پر
نالے طواف روضہ خیرالبشرﷺ کریں

شعر و ادب بھی ، آہ و فغان بھی ہے ان کا فیض
پیشِ حضور اپنی متاعِ ہنر کریں

ابکے جو قصدِ طیبہ کریں رہبرانِ شوق
مظہر کو بھی ضرور شریکِ سفر کریں
 

الف نظامی

لائبریرین
نہیں قیدِ رنج وغم سے کوئی صورتِ رہائی
اے غیاث مستغیثاں ترے نام کی دُہائی

ہے ظہورِ پاک تیرا ہمہ شانِ کبریائی
تو زفہمِ من بلندی تو زفکرِ من ورائی

بہ مقامِ مصطفائی بہ مقامِ مجتبائی
بہ خیالِ من نہ گنجی بہ گمانِ من نہ آئی

وہ سکندری سے بہتر وہ تونگری سے بہتر
ترے در سے جو ملی ہے مجھے لذتِ گدائی

کبھی باریاب ہوگا کبھی باوقار ہوگی
یہ مرا دریدہ دامن ، یہ مری شکستہ پائی

اُسی بارگاہ میں ہے مرا عشق نغمہ پیرا
جہاں عقلِ خود نما کو نہیں اذنِ لب کُشائی

تری عظمتوں کے قرباں، ترے در سے مانگتا ہوں
دلِ سعدی و نظامی ، دلِ رومی و سنائی

مگر از نگاہِ خواجہ شدی فیض یاب مظہر
ہمہ ذوق و شوق و مستی ہمہ سوزِ آشنائی
 
Top